Sunday, 12 May 2013

پاکستانی انتخابات: عالمی اخبارات کیا کہتے ہیں؟

پاکستان میں گیارہ مئی کے تاریخی انتخابات کو دنیا بھر کے اخبارات نے صفحۂ اول پر کوریج دی ہے، اور اس پر اپنے اپنے انداز میں تبصرے کیے ہیں۔
برطانوی اخبار گارڈیئن نے لکھا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات دو معنوں میں تاریخی ہیں کیوں کہ ان کے ذریعے پہلی بار ایک جمہوری حکومت سے         اقتدار دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہو گاےدوسرے یہ کہ ان انتخابات میں چار عشروں کے بعد پہلی بار ایک ’تیسری قوت‘ تحریکِ انصاف ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ تحریکِ انصاف نے دو مختلف طریقوں سے سیاست کی ہے اور اسے اس سلسلے میں بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک ہے سودے بازی کرنے گریز اور دوسرے نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے تک رسائی حاصل کرنا۔
امریکی اخبار یو ایس اے ٹوڈے نے لکھا ہے کہ اپنی حکومت کو فوج کی طرف سے برطرف کیے جانے اور سات سال جلاوطنی میں گزارنے، اور عمران خان کی طرف سے زبردست مقابلے کے باوجود نواز شریف کی فتح بہت متاثر کن ہے۔
معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے جس چیز کو متاثر کن بتایا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کی طرف سے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی دھمکیوں کے باوجود 60 فیصد ٹرن آؤٹ رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار ڈیکلن والش نے اپنے اخبار میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے پاکستان میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کا عہد کیا ہے جس سے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ پہلے ہی تلاطم خیز تعلقات کے آگے سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ ڈیکلن والش کو پاکستان کی حکومت نے ’ناپسندیدہ سرگرمیوں‘ کی وجہ سے ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
یو ایس اے ٹو ڈے رقم طراز ہے کہ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود ان تاریخی انتخابات میں خواتین نے بڑی تعداد میں حقِ رائے دہی استعمال کیا
برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے نواز شریف کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے مغرب کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اخبار کے مطابق نواز شریف نے سنڈے ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا، ’مجھے امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے اور مجھے ان کے ساتھ مزید کام کر کے خوشی ہو گی۔‘


انھوں نے کہا، ’جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو دنیا کے کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔‘





مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف

پاکستان میں گزشتہ روز ہونے والے انتخابات کے اب تک دستیاب غیرحتمی نتائج کے مطابق میاں نواز شریف کی مسلم لیگ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ عمران خان کی تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں کی نشستوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔
گزشتہ حکومت میں پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو قومی اسمبلی میں کچھ نشستیں ملی ہیں لیکن اس کی دوسری اتحادی جماعت اے این پی کو اب تک کے نتائج کے مطابق ایک نشست بھی نہیں مل سکی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق گیارہ مئی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تقریباً ساٹھ فیصد رہی ہے۔
پاکستان ٹیلی وژن کے مطابق اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی کی 127 نشستوں پر برتری حاصل کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی 31 اور تحریکِ انصاف 34 نشستوں پر آگے ہے۔
گزشتہ رات نواز شریف نے اپنے حامیوں سے ایک مختصر ’وکٹری سپیچ‘ میں کہا تھا کہ وہ تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور انھوں نے ملکی مسائل کے حل کے لیے تمام جماعتوں سے مذاکرات کی بات کی تھی


لاہور میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں تقریر کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا، ’ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے پی ایم ایل این کو پاکستان اور آپ کی خدمت کا موقع دیا ہے۔ میں تمام جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ میز پر بیٹھ کر ملک کے مسائل حل کرنے میں مدد دیں۔‘
ادھر تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر نے ابتدائی رجحانات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کو مبارکباد دی تھی لیکن اشارہ دیا تھا کہ ان کی جماعت خیبر پختونخوا میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھر رہی ہے اور وہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہوگی۔
اب تک کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب سے مسلم لیگ نواز نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر زبردست کامیابی حاصل کی ہے اور وہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔
پیپلز پارٹی سندھ میں تو سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آ رہی ہے تاہم وہ پنجاب میں اب تک قومی اسمبلی کی صرف 1 نشست حاصل کر پائی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کو بھی قابلِ ذکر نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔
خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف سب سے آگے ہے جبکہ مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی ایف کی نشتسوں کی تعداد میں زیادہ فرق نہیں ہے۔اس صوبے میں دائیں بازو کی جماعتیں یا مذہبی گروہ کامیاب ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں کچھ حلقوں کے نتائج کا اعلان اب تک نہیں کیا گیا لیکن وہاں پر بھی مسلم لیگ نواز کے چند امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
ان انتخابات میں جہاں مسلم لیگ نواز کے تمام اہم رہنما کامیاب ہوئے ہیں وہیں پیپلز پارٹی کے پنجاب میں تمام اہم رہنما شکست کھا گئے ہیں۔
الیکشن جیتنے والے اہم رہنماؤں میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف لاہور اور سرگودھا کی نشستوں سے کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے بھائی شہباز شریف بھی لاہور سے جیت گئے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان چار میں سے تین حلقوں میں جیتے ہیں اور انہیں لاہور کی نشست سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اب تک پیپلز پارٹی کے جیتنے والے اہم رہنماؤں میں مخدوم امین فہیم، فریال تالپور، فہمیدہ مرزا اور نوید قمر شامل ہیں۔
اس الیکشن میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے بڑے بڑے رہنماؤں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شکست خوردہ رہنماؤں میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق وفاقی وزراء قمرالزمان کائرہ، نذر محمد گوندل، احمد مختار، فردوس عاشق اعوان، صمصام بخاری اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کے صدور منظور وٹو اور امتیاز صفدر وڑائچ شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے چاروں بیٹے اور بھائی الیکشن ہار گئے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے اہم پارلیمنٹیرین انور چیمہ بھی اس مرتبہ الیکشن نہیں جیت سکے ہیں۔ وہ 1985 سے لگاتار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے تھے۔
تحریکِ انصاف کے شکست کھانے والے رہنماؤں میں شاہ محمود قریشی بھی چار میں سے تین نشستوں پر ہارے ہیں جبکہ لاہور میں حامد خان اور ناروال میں ابرار الحق بھی ہارنے والوں میں شامل ہیں۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے دیگر جماعتوں کو بات چیت کی دعوت تجزیہ کاروں کے خیال میں ان کی بالغ نظری کا ثبوت ہے۔ میاں نواز شریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں گے اور کارگل کی لڑائی کی جانچ کرائیں گے۔ لیکن ملکی سطح پر دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کی بحالی ، اقتصادی ترقی، غربت اور بے روزگاری میں کمی ان کے سب سے بڑے چیلینج ہوں گے